ایک ایمان افروز داستان


 

(ایک ایمان افروز داستان)

یہ تب کی بات ہے۔ جب ہندوستان پر انگریز کی حکومت تھی۔ اور وہ جاننا چاہتے تھے کہ ان کے خلاف بغاوت کون کر سکتا ہے۔ تحقیق کے بعد انہوں نے قرآن سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی کھڑا ہو سکتا ہے تو وہ مسلمان ہے۔ جس کی روح جہاد نکالنا ضروری ہے


 اس کے لئے انہوں نے کئی طرح کے انتظامات کئے۔ مرزا غلام احمد ملعون جیسے فتنہ ساز تیار کئے۔ بریلوی دیوبندی اختلاف کو ہوا دی۔ اور فرقہ پرستی کی حوصلہ افزائی کی۔ پھر 1861ء میں الہ آباد میں ایک عظیم کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ سرکاری سرپرستی میں برپا کی گئی کانفرنس تھی۔ اس کا نام میلہ خدا شناسی رکھا گیا۔ اس میں تمام مذاہب کے علما کو دعوت دی گئی کہ آئیں اور اپنے مذہب کے حق میں دلائل دیں۔ ہندو۔ سکھ۔ ڈوگرے۔ بدھسٹ۔ مسلمان۔ ہر مذہب کے بڑوں کو موقع دیا گیا کہ اپنے دین کی حقانیت ثابت کریں۔ عیسائیوں کی طرف سے پادری کارل گوٹلیب فینڈر نے اپنا کیس پیش کیا۔ اور دیگر مذاہب کے جھوٹے ہونے کے حق میں دلائل دیئے۔ اس کا اصل ہدف اسلام تھا۔ دراصل فینڈر نے بیس برس تک اسلامی تعلیمات سیکھنے میں صرف کئے تھے۔ وہ مختلف مسلمان ملکوں کا دورہ کر چکا تھا۔ وہاں کے علما اور مختلف فرقوں کے بڑوں کے آگے زانوے تلمذ تہہ کر چکا تھا۔ وہ عربی کا ماہر تھا۔ قرآن۔ حدیث۔ فقہ۔ تاریخ اسلام اور اصول اسلام پر عبور رکھتا تھا۔ اسے برطانوی حکومت نے تیار کیا تھا۔ تاکہ ہندوستان کے طول و عرض میں مولویوں اور علمائے کرام سے مناظرے کر کے انہیں غلط ثابت کرے۔ اور اسلام کو غلط۔ گمراہ کن اور جھوٹا مذہب ثابت کرے (نعوذ باللہ)۔ فینڈر اپنے علمی ہتھیاروں سے لیس ہوکر ہندوستان آیا تو اس نے طوفان برپا کر دیا۔ ملک بھر میں گھومتا رہا اور ہزاروں کے مجمع میں مسلمان علما سے مناظرہ کرتا رہا۔ اس کے علم کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ جو اعتراضات وہ اٹھاتا۔ وہ مولوی حضرات کے بس سے باہر تھے۔ نتیجہ یہ کہ جواب دینے سے قاصر رہتے اور فینڈر مونچھوں پر تاؤ دیتا رخصت ہوجاتا۔ ان مناظروں کی اطلاع دارالعلوم دیوبند کے ایک بزرگ سرپرست حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کو ہوئی تو انہوں نے اپنے شاگرد خاص اور خلیفہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کو تیاری کا حکم دیا۔ حاجی صاحب اور مولانا دونوں مکہ میں مقیم تھے۔ مولانا مکہ کے مدرسہ صولتیہ کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے تیاری کی اور الہ آباد کے میلہ حق شناسی میں پہنچ گئے۔ جہاں ایک کے بعد ایک مذہب کا عالم آتا گیا اور اپنے مذہب کے حق میں دلائل دیتا رہا۔ جواباً فینڈر اعتراضات کی بوچھاڑ کر کے اسے پچھاڑ دیتا۔ یہاں تک کہ اسلام پر بات کرنے کا وقت آگیا۔ تب فاؤنڈر نے انتہائی مشکل اعتراضات پر مشتمل ایک تفصیلی تقریر کی اور دعویٰ کیا کہ اسلام نعوذ باللہ جھوٹا مذہب ہے۔ پھر اس نے اسٹیج سے چیلنج کیا کہ کوئی عالم ہے۔ جو اس کے اعتراضات کا جواب دے۔ یہ اعلان کرنا تھا کہ رحمت اللہ کیرانوی اٹھ کھڑے ہوئے اور اسٹیج پر پہنچ گئے۔ انہیں دیکھ کر فینڈر حقارت سے مسکرایا۔ کیونکہ مولانا سب کے لئے اجنبی تھے۔ لیکن جب بولنا شروع کیا تو فینڈر سمیت ہزاروں کے مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ البتہ وقفے وقفے سے مسلمانوں کے نعرہ تکبیر کی آوازیں گونجتی رہیں۔ مولانا صاحب نے فینڈر کے اعتراضات کی دھجیاں اڑا دیں۔ اور عربی زبان کے قواعد اور اصول سے ثابت کیا کہ فاؤنڈر کو عربی نہیں آتی۔ اور وہ جاہل مطلق ہے۔ اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا تفصیلی اور شافی جواب دینے کے بعد حافظ صاحب نے موجودہ عیسائیت پر اعتراض اٹھانے شروع کر دیئے۔ یکے بعد دیگر کئی درجن عیسائی حوالوں سے ثابت کیا کہ موجودہ عیسائیت جھوٹی اور گمراہ کن ہے۔ اور اس کی تعلیمات وہ نہیں۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لائے تھے۔ حضرت کا خطاب علم کا شوریدہ سر دریا تھا۔ جس نے فینڈر اور عیسائیت کی موجودہ تعلیمات خس و خاشاک کی طرح بہادیں۔ خطاب مکمل ہوا تو مجمع پر جادو ہو چکا تھا۔ فینڈر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ حیرت۔ خوف اور سکتے کا شکار تھا۔ اس کا غرور ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ وہ خاموشی سے اٹھا اور حافظ صاحب کی تقریر کا جواب دیئے بغیر کانفرنس سے باہر چلا گیا۔ اس کے بھاگتے ہی ہزاروں کے مجمع نے مولانا صاحب کو سر پر اٹھا لیا۔ مسلمانوں کا بس نہیں چلتا تھا کہ مولانا پر قربان ہوجائیں۔ ادھر برطانوی حکام کو فینڈر کی شکست کی اطلاع مل چکی تھی۔ مسلمانوں کو جہاد سے برگشتہ کرنے اور اسلام کے بارے میں شکوک پیدا کرکے مسلمانوں کو مذہب سے لاتعلق بنانے کی سب سے بڑی کوشش ناکام ہوگئی تھی۔ جس کا انہیں شدید غصہ تھا۔ انہوں نے حافظ رحمت اللہ کیرانوی اور پادری فینڈر کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مولانا صاحب کو اس لئے کہ انہوں نے سارے منصوبے میں کھنڈت ڈال دی۔ اور فینڈر کو اس لئے کہ اس نے برسوں کی سرمایہ کاری ضائع کر دی۔ اور عیسائیت کو بدنام کر دیا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ۔


 دونوں کو اپنے اپنے ذرائع سے منصوبے کی بھنک مل گئی۔ مولانا صاحب روپوش ہوگئے اور عراق کے راستے دوبارہ مکہ پہنچ گئے۔ جہاں ان کے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ان کا انتظار کر رہے تھے۔ فینڈر بھی فرار ہوا اور استنبول چلا گیا۔ جہاں سلطان عبدالحمید کی حکومت تھی۔ فینڈر نے دربار سے رابطہ کیا اور سلطان کو بتایا کہ وہ ہندوستان بھر کے علما کو مناظرے میں شکست دے چکا ہے۔ اور اب ترکی علما سے مقابلے کے لئے آیا ہے۔ سلطان کی ایما پر ترکی علما نے فینڈر سے مناظرے کئے۔ لیکن استعداد کم تھی۔ اس لئے عاجز آگئے۔ فینڈر نے بھرے دربار میں ہنکارنا شروع کیا کہ لائیں کسی عالم کو جو مجھ سے مناظرہ کرے۔ سلطان یہ دیکھ کر بہت آزردہ ہوا۔ پھر اپنے وزرا کے مشورے سے شریف مکہ کو خط لکھا کہ کسی بڑے عالم کو استنبول روانہ کیا جائے۔ جو فینڈر نامی پادری سے اسلام کی حقانیت پر مناظرہ کرے۔ سلطان نے فینڈر اور ترکی علما کے مناظرے کی تفصیل بھی لکھ دی۔



 تاکہ شریف مکہ کو عالم تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ واضح رہے کہ ان دنوں حرمین شریفین سلطان ترکی کی سلطنت کا حصہ تھا اور شریف مکہ ان کا ماتحت تھا۔ شریف مکہ نے خط ملتے ہی حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے رابطہ کیا اور سارے معاملے سے آگاہ کر کے درخواست کی کہ کسی اچھے عالم کو استنبول روانہ فرمائیں۔ حاجی صاحب نے شریف مکہ کو تسلی دی۔ اور کہا کہ وہ جواب لکھ دے کہ انشاء اللہ جلد ایک عالم استنبول پہنچیں گے۔ جو فینڈر کی طبیعت صاف کر دیں گے۔ لیکن اس کے لئے دو شرائط ہیں۔ ایک تو یہ کہ عالم کے نام کا اعلان نہ کیا جائے۔ اسے خفیہ رکھا جائے۔ دوسرے یہ کہ عالم کی رونمائی صرف اس وقت ہو۔ جب ان کے جواب دینے کی باری ہو۔ باری آنے تک انہیں پردے کے پیچھے بٹھاکر رکھا جائے۔ سلطان نے جوابی خط میں دونوں شرائط منظور کرلیں۔


 اور ایک تاریخ کا اعلان کر دیا کہ مکہ سے آنے والے ایک بڑے عالم فینڈر سے مناظرہ کریں گے۔ مناظرہ کھلی جگہ پر ہوا۔ سلطان سمیت بے شمار ترکی مسلمان موجود تھے۔ فینڈر نے پہلے تقریر کی اور اپنی دانست میں خوب خوب اسلام پر گرجا برسا۔ اس کے بعد اعلان ہوا کہ اب مسلمان عالم تشریف لائیں گے۔ جونہی مولانا رحمت اللہ کیرانوی پردے سے باہر آکر اسٹیج پر چڑھے۔ فینڈر کا رنگ فق ہوگیا۔ وہ سمجھ گیا کہ اب اس کی خیر نہیں۔ مولانا نے تقریر شروع کی تو سماں باندھ دیا۔ درجہ بہ درجہ فینڈر کے اعتراضات رد کرنے شروع کئے۔ اور ایسی دلیلیں دیں کہ سننے والے جوش و جذبے سے بھرگئے۔ فینڈر کے تمام اعتراضات کا بھرپور علمی جواب دینے کے بعد مولانا نے موجودہ عیسائیت پر اعتراضات شروع کئے تو فینڈر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور سلطان سے اجازت مانگی کہ اسے اجابت کے لئے باتھ روم جانا ہے۔ وہ تھوڑی دیر میں واپس آجائے گا۔ سلطان نے اجازت دے دی۔ فینڈر باتھ روم گیا تو آج تک نہیں آیا۔ کہتے ہیں آج بھی ترکی میں اس کا انتظار ہے کہ کب فارغ ہوکر آئے گا اور مولانا کاجواب دے گا۔

Comments

Popular Posts