اُم الامراض موٹاپا

 اُم الامراض موٹاپا 


موٹاپا انسانی جسم کی ایک طبعی حالت ہے جس میں جسم پر چربی چڑھ جاتی ہے،وزن زیادہ ہو جاتا ہے اور توند نکل آتی ہے۔ماہرین آج تک اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے کہ بعض انسان کیوں موٹے ہوتے ہیں؟انسان کے موٹے ہونے یا ان کے وزن بڑھنے کے حوالے سے کئی تحقیقات کی جا چکی ہیں۔ہر بار کوئی نہ کوئی نیا سبب سامنے آتا ہے۔

زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ انسان کا طرز زندگی،کھانے پینے کا شوق ہر وقت بیٹھے رہنے،سوتے رہنے اور ورزش نہ کرنے کی وجہ سے وزن بڑھتا ہے اور وہ موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے۔تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں بعض افراد ایسے بھی ہیں جو ہر طرح کی غذائیں بھی کھاتے ہیں،زیادہ وقت بیٹھے رہنے سمیت کوئی ایکسر سائز بھی نہیں کرتے لیکن پھر بھی وہ موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے۔
موٹاپا کی وجہ سے یقینا کئی طرح کے مسائل درپیش آتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک سمیت ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کے مرنے کا ایک سبب موٹاپا بھی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 70فیصد افراد موٹاپا اضافی وزن کا شکار ہیں۔ایسے افراد موٹاپا یا اپنا وزن کم کرنے کے لئے جہاں زیادہ وقت بھوکے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں وہیں وہ مختلف ایکسر سائزز بھی کرتے رہتے ہیں۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد غذا کم کھانے اور ایکسر سائز کرنے کے باوجود موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور انسان موٹا کیسے اور کن چیزوں سے ہوتا ہے؟
ہر انسان کا جسم مختلف ہوتا ہے۔ہر کسی کے جسم میں غذائیت کو جذب کرنے اور غذاکو مکمل جسم میں تقسیم کرنے کی اہلیت بھی منفرد ہوتی ہے۔ہم سب ہی یہ بات جانتے ہیں کہ وزن کیسے بڑھتا ہے۔

جب ہم جتنی کیلوریز ہمیں چاہئیں اس سے زیادہ کیلوریز کھانے لگتے ہیں تو وزن بڑھنے لگتا ہے لیکن ہم ضرورت سے زیادہ کھانا کیوں شروع کر دیتے ہیں؟کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اچانک چاکلیٹ یا کیک جیسی بہت زیادہ کیلوریز والی چیزیں کھانے کی شدید طلب محسوس ہوتی ہے۔
حالانکہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑی دیر بعد ہمیں پچھتاوا ہو گا۔موٹاپا ہمیشہ زیادہ کھانے کے نتیجے کے عمل میں آتا ہے۔

(اگر کوئی بیماری نہ ہو)۔جو کھانا ہم کھاتے ہیں اگر اس کی توانائی کی مقدار روزانہ استعمال ہونے والی توانائی سے زیادہ ہو تو یہ فالتو مقدار ہمارے جسم میں چکنائی کی شکل میں جمع ہوتی رہتی ہے اور وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔اس لئے اگر اس کے ساتھ ساتھ مناسب ورزش کرلی جائے تو بہتر ہے۔ماہرین کو اس بات کے شواہد بھی ملے ہیں کہ ذہنی دباؤ موٹاپے کی ایک اہم وجہ ہوتا ہے۔

زیادہ ذہنی دباؤ کی حالت میں ہماری نیند خراب ہوتی ہے اس وجہ سے ہمیں زیادہ بھوک لگتی ہے اور کچھ کھا کر ہی آرام ملتا ہے اور خون میں شوگر کی مقدار بھی متاثر ہوتی ہے۔
موٹاپے کے چند مزید اسباب
کہتے ہیں کہ سگریٹ نوشی عمل تنفس پر اثر انداز ہوتی ہے،اس سے آکسیجن کے ستعمال میں کمی آجاتی ہے۔نتیجتاً بھوک میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وزن میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔


بعض خاندان ایسے غیر صحت مند جینز(Genes) لیے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بھوک میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
بعض خاندانوں کی عادات و اطوار کھانے پر اثر انداز ہو کر موٹاپے کا باعث بنتی ہیں۔
بعض اوقات یہ انجانے میں ہو جایا کرتا ہے اور بعض اوقات اس کے کچھ عوامل ہوتے ہیں اور انسان کی اپنی غلطی کے نتیجے میں بھی یہ مرض لاحق ہوتا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر جسم کا وزن زیادہ ہو جائے تو اسے کم کیسے کیا جا سکتا ہے۔

سب سے مشکل مرحلہ جسم کے وزن کو کم کرنے کا ہے۔کم وزن کو زیادہ کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔90فیصد افراد ایسے ہیں جو اپنی غلطی سے اس مرض کا شکار ہوتے ہیں اسے نا صرف مرض کہا جاتا ہے بلکہ اسے ’ام الامراض‘بھی کہا جاتا ہے۔اگر موٹاپا طاری ہو گیا تو دمہ کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔دل کے لئے مسئلے کا باعث ہو سکتا ہے کہ پہلے جس سائز کو دل خون پہنچا رہا تھا اب اس سائز میں اضافہ ہو جاتا ہے۔


موٹاپے سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
جو کچھ ہم کھاتے پیتے ہیں ہمیں اس چیز کا علم ہونا چاہیے کہ ہمارے جسم کو کتنی خوراک کی ضرورت ہے۔جب بھوک لگے تو کھانا کھایا جائے، ابھی تھوڑی بھوک باقی ہو تو کھانا چھوڑ دیا جائے۔یہ اتنا بڑا اصول ہے کہ اس اصول کو اپنانے والے اشخاص انتہائی سڈول،چاق و چوبند، چست و چالاک،انتہائی پھرتیلے ہوتے ہیں۔

ان کے تمام حواس بہترین طور پر کام کرتے ہیں اور وہ تھکاوٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ایک صحت مند انسان خواہ اس کا وزن جتنا بھی ہو اسے روزانہ کم و بیش 2ہزار کیلوریز درکار ہوتی ہیں۔ان میں کمی بیشی اس طرح ہوتی ہے کہ ایک انسان جسے معلوم ہے کہ اسے 2ہزار حرارے چاہئیں لیکن وہ ایسا کام کرتا ہے کہ جس میں اسے سارا دن آفس میں بیٹھتا ہے یا ایک ایسا کام جس میں محنت و مشقت زیادہ نہیں ہے،دوسری جانب ایک مزدور بوریاں اٹھاتا ہے،سڑکوں پر کدال یا کھیتوں میں ہل چلاتا ہے،اسے کیلوریز کی ضرورت زیادہ ہو گی بہ نسبت پہلے شخص کے، اور اسے اپنی 2ہزار کیلوریز پوری کرنی ہیں لیکن ہماری اکثریت عموماً خواتین بہت زیادہ محنت و مشقت کا کام نہیں کرتیں۔

گھر میں ایک دو گھنٹے کا کام کیا اس کے بعد انھیں آرام کرنا ہوتا ہے۔محنت مشقت کی نشانی ہے کہ جسم سے پسینہ خارج ہونے لگے اور نبض کی رفتار تیز ہو جائے ،سانس کی رفتار تیز ہو جائے۔اس صورت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زیادہ توانائی یا زیادہ کیلوریز خرچ ہوئیں۔
یہ جاننے کے لئے کہ ایک دن میں کتنی کیلوریز کا استعمال کیا جانا ضروری ہے اپنے وزن کو پاؤنڈز میں لے کر اور 12سے ضرب دے دیں۔

100پاؤنڈز کے وزن کو اگر 12سے ضرب دیا جائے تو جواب 1200آتا ہے۔یعنی ایک دن میں آپ کو 1200کیلوریز استعمال کرنی ہیں۔وزن کم کرنے کے لئے اپنی کیلوریز کا استعمال کم سے کم کرتے جائیں تو آپ کا وزن کم ہو جائے گا۔یہ اصول مردوں کے لئے ہے۔ خواتین اس میں سے چھ فیصد کیلوریز کا استعمال کم کریں گی۔یعنی سو پاؤنڈز کے لئے انھیں 1128کیلوریز درکار ہیں اگر ایک شخص کا وزن 100پاؤنڈ ہے اور اسے 1200کیلوریز کی ضرورت ہے تو وہ پہلے 20سے 15دن1000کیلوریز کی چیزیں کھائے۔


200کیلوریز نہیں ملیں گی تو جسم میں موجود کیلوریز چربی کی صورت میں جمع ہیں وہ استعمال ہونا شروع ہو جائیں گی،اس طرح اس کا وزن کم ہونا شروع ہو جائے گا۔اس کے ساتھ ہی ساتھ ان چیزوں کا استعمال کرنا جن سے پیٹ صاف ہوتا ہے۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کھانے کی کس چیز میں کتنی کیلوریز ہیں(مثلاً گوشت اور سبزیاں وغیرہ ہیں)اور کس کام کو کرنے میں کتنی کیلوریز استعمال ہو گی۔

مثلاً ایک شخص ایک گھنٹہ سیڑھیاں چڑھتا ہے تو وہ 1100حرارے استعمال کرتا ہے،ایک گھنٹہ تیراکی کرتا ہے تو 500حرارے خرچ کرتا ہے اور دوڑنے میں 550اور اس طرح سونے میں ایک گھنٹے میں 60کیلوریز استعمال ہوتی ہیں۔بیٹھ کر کام کرنے میں ایک گھنٹے میں 90 کیلوریز استعمال کرتا ہے اور اگر لیٹ کر کام کرے تو 70کیلوریز ایک گھنٹے میں استعمال کرتا ہے۔اس طرح خواتین گھر کے کام میں 200-170کیلوریز خرچ کرتی ہیں اور خواتین کہتی ہیں اتنا کام کرتے ہیں تو وزن کم کیوں نہیں ہو رہا کہ وہ کام کاج میں 200-170 سے زیادہ کیلوریز استعمال نہیں کرتیں۔

ایک گھنٹہ تیز چلنے سے تقریباً 400کیلوریز خرچ ہوتی ہیں۔ناشتہ نہ کرنے سے وزن بڑھتا ہے۔ ناشتہ لازمی کرنا چاہیے،چاہے ایک بسکٹ کھائیں۔اس طرح رات کا کھانا بھی بہت ضروری ہے۔اگر نہ کھایا جائے تو انسان میں نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور نیند بھی غائب ہو جاتی ہے۔دوپہر کے کھانے کے بجائے ہم پھل کھا سکتے ہیں یا سلاد کھا سکتے ہیں دوپہر کا کھانا چھوڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ناشتہ چھوڑنے سے اور اگر جلدی نہ کیا جائے تو جسم پھولتا ہے۔

کھانا کھانے سے پہلے تربوز کھانا پیٹ کو صاف کر دیتا ہے اور اگر تربوز نہ ملے تو خربوزہ ،پپیتا،سردہ،گرما ان میں سے کوئی سا بھی پھل کھانے سے پہلے کھا لیں(ڈیڑھ گھنٹے پہلے)تو پیٹ کے اندر موجود چربی کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے جس سے پیٹ کم ہوتا ہے اور وزن بھی کم ہو جاتا ہے

Comments

Popular Posts