علماء كرام کا اھم مسئلہ




فاضلین کی حقیقت حال کے علاؤہ اس میں


 کوئی بھی بات قابل قبول نہیں۔
جو فارغ التحصیل ہوجائے اسے چاہیے کہ خود تجارت کرے۔
تجارت کیلئے بڑے سرمایہ کی ضرورت نہیں۔
ہر فارغ التحصیل کو امامت ملے یا تدریس ملے یہ ناممکن ہے۔
اتنے مدارس ہیں نا ہی مساجد۔
خود امام صاحب کے قریب المرگ ہونے پر اسکے پانچ چھ بچے نائب بن نے کیلئے دست وگریباں ہیں۔
ہمارے اکابرین نے ہمیں علم پڑھایا سکھایا دین کی نشر و اشاعت کیلئے۔
اپنی معاشی فکر ہمیں خود کرنی چاہیے۔
ہم اپنے اکابر کے پاس علم سیکھنے کی غرض سے گئے تھے اور دنیا میں پھیلانے کی نیت کے ساتھ۔
اگر کسی کا معاشی مسئلہ درس وتدریس ا ور امامت کے ذریعے حل ہو جاتا ہے تو شکر بجا لائے۔ جس کو یہ سب میسر نہیں تو اپنی معاش کا کوئی اور ذریعہ تلاش کرکے اسی میں دین کی خدمت اور علم کا پرچار کرے۔
دنیاوی جس شعبہ یا تجارت میں کام کرےوہاں اتنی ایمانداری سے کام کرے کہ آئندہ لوگ فار غ التحصیل علماء کو اپنی كام میں ملازمت کیلئے ترجیح دیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اپنی نالائقی وجہ سے اپنے اکابرین کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں۔
خود سے کچھ کر دکھائیں اور دوسروں کے لئے قابلِ رشک مثال بن جائیں۔

Comments

Popular Posts